دیہی پاکستان میں مالیاتی اداروں کی کامیابی کا نمبر'۱' فارمولا: بات خُلوص سے سُننا
اگرچہ 'سننے ۔ Listening' کی صلاحیت، لیڈرشپ کی اہم ترین صلاحیتوں میں شامل ہے، میں نے اس بلاگ کی ہیڈلائن میں بالخصوص 'دیہی پاکستان ' کا نام
کسی وجہ سے لکھا ہے۔ ہمارے قصبوں اور دیہاتوں سے مالیاتی اداروں میں آنے والے متنوع افراد
، چاہے وہ اندرونِ سندھ، شمالی بلوچستان، خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان یا جنوبی پنجاب
سے ہوں، مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے امین ہیں۔ اِن کو ایک مرتبہ آپ پر اعتبار ہو جائے،
تو خود غرضی ،بے مروتی اور بے دید پن کا
مظاہرہ نہیں کرتے۔ پانچوں انگلیوں کی طرح، یہاں بھی گنجائش ہے ہر 'منفی' پن کی،
لیکن ان
علاقوں کے قناعت پسند ، مان سمان دینے اور
چاہنے والوں کو وابستہ رکھنے کیلئے، آپ کی توجہ اور اچھی
سماعت ، آپ کے قابل اعتماد دوستوں کی تعداد میں خاظر خواہ اضافہ کردیتی ہیں۔
ماضی قریب میں ،میرپورخاص میں فیملی تکافل برانچ کے ایک مینیجر
، وسان صاحب نے کئی سال پرانا ایک
واقعہ سنُایا۔ ایک نیاکنسلٹنٹ اُن کے پاس آیا جو اپنی تکافل ڈسٹری بیوشن کی پریکٹس میں درپیش مشکلات کے بارے میں بات
کرنا چاہتا تھا۔ "میں نے اُس کی
مشکل کا ذکر آتے ہی اُسے حوصلہ دیا
کہ ایک دن میں صرف اُس دن کے آسان ہدف پر
توجہ دیں۔ ایک کال کے بعد دوسری کال تک اُس وقت تک بڑھیں حتیٰ کہ ایک اپوانٹمنٹ طے ہوجائے۔ جب ایک نئے کلائنٹ سے میٹنگ ہو جائے تو اگلے ریفرل کو حاصل کریں۔ " وسان صاحب کو یقین تھا کہ ان کی حوصلہ افزائی والی ترکیب اُسے ایک کامیاب کنسلٹنٹ بننے کے راہ پر گامزن کر دے گی۔ اس کے
بجائے، وہ نیا کارکن اسی ہفتے کے آخر میں اُن سے جُدا ہو گیا۔ وسان صاحب کو اب یہ یقین ہے کہ اگر وہ اسے کچھ بتانے
سے پہلے اُس کی کیفیات اور خدشات کو کھلے دل سے سنتے تو شاید
وہ نیا کارکن تکافل مشاورت کے عمل کو
زیادہ مثبت طریقے سے دیکھ پاتا۔
جس طرح
'بات کرنے کی تمیز ' کا طعنہ ہوتا ہے، کاش 'بات سُننے کی تمیز' کا بھی عام ہوتا! فنِ
سماعت یعنی سننے کا حوصلہ پیدا کرنا آسان ہنر نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ اپنی سننے اور
قیادت کی صلاحیتوں کو بڑھانے کیلئے خاصی مشق
اور تجربہ درکار ہوتا ہے۔ اندرونِ ملک
کی ٹیموں میں جہاں گرمجوشی اور ولولہ انگیز خطابات
سننے کو ملتے ہیں ، وہیں انتہائی
حساس اور جذباتی ردِ عمل بھی فوری طور پر
آجاتا ہے۔ لہذا اپنے آپ کو ہر طرح کی
آوازوں کیلئے ہمہ تن گوش رہنے کا معمول (یعنی New
Normal)
بنائیے۔ بقول عباس رضوی،
میں جو چپ تھا، ہمہ تن گوش تھی بستی ساری
اب مرے منہ میں زباں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
۲۰۱۰ کے آس پاس، نوابشاہ میں مسعود مستوئی صاحب نے لوکیشن ہیڈ کی پوزیشن سنبھالی۔ مسعود صاحب نے ایک پرائمری ٹیچر کو کنسلٹنٹ کے طور پر اپنی ٹیم کا حصہ بنایا، جو کئی کوارٹرز تک بزنس لانے میں کامیاب رہے۔، جس کی وجہ مستوئی صاحب کے بقول ماسٹر سائیں کی عام لوگوں کی بات کو سننا، اُن کی باڈی لینگوئیج کو کاپی کرنا اور تمام مقامی ترجیحات اور پہلوؤں کو اپنی ملاقات اور گفتگو کا حصہ بنانا تھی۔ کوئی کنسلٹنٹ ہو یا کلائنٹ ، ، جب کوئی آپ کے پاس کسی سوال یا تشویش کے ساتھ آئے ، تویہ یقینی بنائیں کہ آپ کے پاس سننے کے دوران کوئی پریشانی یا خلفشار نہ ہو۔ بشمول مخاطب سے اپنے بغض یا موضوع پر پہلے سے قائم اندرونی رائے کو نظر انداز کرنے کے علاوہ اپنے موبائل فون، کمپیوٹر سے نگاہیں ہٹا کر ، مخاطب پر توجہ دینا بھی ضروری ہوتا ہے ۔
فنِ سماعت کی کمزوری میں نامناسب روئیے کا کردار:
جس طرح نظر ، پٹھے اور یاداشت عمر بڑھنے سے کمزور ہوسکتے ہیں ، یقیناً ، سماعت بھی ہوتی ہے، البتہ سننے یا سماعت کے فن کے حوالے سے میرا پاکستانی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ہمارے ہاں اکثر پروموشن، عہدوں اور اوقات میں اضافے کے ساتھ 'دوسروں کی سننے' میں دِقت پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسرے اداروں کے بڑے عہدوں سے ایک دو درجے اوپر آنے والے افسران کی جہاں باقی تمام خوبیوں کی تصدیق کی جاتی ہے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ اُن کے سابقہ اداروں میں اُن کے روئیوں Behavior کا بھی پتہ کرلیا جائے!
ہم فائنینشل سروس انڈسٹری میں اخلاق، انکساری اور ایثار پر مبنی ماحول
میں مطلق العنان آمر سپروائزر
کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔اکژ چھوڑ
کر جانے والے اپنے سپروائزر کی ذاتی
رعونت، اننانیت اور عہدوں کا زعم اور احساس برتری
کے روئیوں کی شکایت کرتے ہیں۔ ہمارے شہری علاقوں کی نسبت دیہی
پاکستان میں 'افسران' کے ایسے روئیے زیادہ نمایاں ہونے کی ایک بڑی وجہ وہاں موجود دیگر
سماجی کرداروں سے مسابقت ہوتی ہے۔ افسری کا گھمنڈ سرکاری محکموں
میں بھی اچھا نہیں لگتا، یہ کس طرح سے مالیاتی اداروں میں عوامی خدمت پر مامور افراد کیلئے مناسب ہوسکتا ہے؟ ایسے کردار سنتے
نہیں سنُاتے ہیں، اور وہ بھی اپنی روداد
اور مطالبات۔ اپنی کارکردگی،
نتائج اور قول و فعل کا محاسبہ تو درکنار، اپنی ٹیم کی پیشہ وارآنہ ضروریات
پر بھی توجہ دینے سے قاصر ہوتے
ہیں۔ لہذا ایسے روئیوں کی نشاندہی خود
ایسے کرداروں کی اصلاح کیلئے ضروری ہے۔
لیڈرز کی ذاتی الجھنیں اور
مصروفیات بھی سُننے کو مشکل بناتی
ہیں۔ کبھی کبھی لیڈر اپنے جواب پر اتنے
مرکوز ہوتے ہیں کہ وہ مکمل طور پر نہیں سن
سکتے،وہ اپنے ذہن اور اپنی زندگیوں میں مصروف ہو سکتے
ہیں، اور وقت نہیں نکالنا چاہتے۔ دوسرے
اوقات سننا اس لئے مشکل ہوتا ہے کیونکہ یا
تو لیڈر کو جواب نہیں معلوم یا موضوع اُن
کے لئے حساس ہے اور وہ اس کے بارے میں بات
نہیں کرنا چاہتا۔ لیڈرز کے لیے یہ ضروری
ہے کہ وہ ٹیم ممبرز کو سنُے جانے کا موقع دیں، تاکہ وہ بلا روک ٹوک اپنے جذبات اور
خیالات شیئر کرسکیں۔اگر آپ اُن کی گفتگو
کی توثیق نہیں کرتے اور شخص کو سنُنے کا موقع ہی نہیں دیتے، تو وہ مایوس ہو جائیں گے اور اپنا صلاحیتوں کا اظہار نہیں کریں گے ۔
فن ِ سماعت میں بہتری کے طریقے:
۱۔ پہلے سنیں، آخر میں بولیں: سپروائزر/لیڈر کو اکثر
یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ اُن کی پوزیشن کا تقاضا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خطاب فرمائیں یعنی ہر
مکالمے کو بحث میں تبدیل کرتے ہوئے حاضرین پر غالب رہیں۔ لیڈر کے
سب سے پہلے بیان دینے یا تبصرہ کرنے سے پوری گفتگو کا رنگ ڈھنگ ہی بدل جاتا ہے، جو خود سوال اور خود جواب کی کیفیت بنا دیتا ہے۔
لیکن جب لیڈر سننے کے لیے فراخ دلی سے وقت دیتا ہے، تو ٹیم ممبرز اپنی تشویش اور
خدشات کا اظہار کرتے ہیں، جو اُن کی الجھنوں میں کمی کا موجب ہوتا ہے ۔ اچھی فنِ سماعت کا تقاضا یہ کہ حاضرین کے بیان کا حل تلاش کرنے میں عُجلت کی
بجائے، سوالات پوچھ کر ٹیم ممبران کو
درپیش صورتحال یا تشویش کو واقعی سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ پھر آپ کے بیان
یا جواب کے،(
جو ٹیم ممبران کے پورے موقف کو سننے کے بعد) آنے سے اختلافات
کم سے کم ہوجاتے ہیں۔
۲۔ معلوماتی
بیان سن کر اُس کی تصدیق کریں: یاد کیجئے، کتنی مرتبہ کسی نے آپ سے کہا ' نہیں، میں نے یہ تو نہیں کہا تھا/آپ میری بات سمجھے نہیں/میرا
یہ مطلب تھوڑی تھا!' اس کیفیت کی وجہ سے
بات کہنے والے کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ آپ کے بارے میں یہ کہے کہ 'انھوں نے اپنی طرف سے بات کی۔۔۔'۔ یہ مسئلہ اُس وقت حساس ہوجاتا ہے، جب سننے والے
پاکستان کے بڑے شہر سے ہوں، اور سُنانے
والے دیگر علاقوں سے۔ لہجے، تلفظ، انداز
گفتگو کا فرق مفہوم کو کچھ کا کچھ بناسکتا ہے۔ اس کیلئے پوری توجہ سے بات سُن کر،
اُس بات کو دہرا کر یہ پوچھیئے ، 'آپ کا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ۔۔۔(آپ کو سمجھ میں
آنے والی بات کا ذکر)' ۔ اس طرح سے مطلب مفہوم کی تصدیق سے آپ اُن کا اعتماد حاصل کر سکیں گے۔ یہ ایک ایسا ضروری عمل ہے، جو اُس وقت
خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے، جب آپ کو ایک ٹیم ممبر /کلائنٹ کی بات کو سننے کے
بعد کسی اور کو وہ معلومات پہنچانی ہوں۔
۳۔
مسائل کو سُن کی ممکنہ حل کی رہنمائی کریں: اپنی ٹیم سے ہمیں صرف معلوماتی مواد (حقائق،
اعدادوشمار، ذاتی رائے، مفروضہ وغیرہ ) ہی نہیں سننے کو ملتا ہے، بلکہ بسااوقات
سننے والے مواد کی نوعیت شکایات، مطالبات اور مسائل
پر مبنی ہوتی ہے۔ اچھا لیڈر اِس نوعیت کے مواد کیلئے مخاطب سے
گفتگو کی منظم ترتیب Organized
Sequence
کے تحت سوالات پوچھتا ہے۔ پہلے مسئلے کا
احوال، پھر اُس کی (مخاطب کے مطابق) وجوہات/اسباب اور آخر میں ممکنہ حل/سفارشات پر رضامندی کا حصول۔ اس اندازِ سماعت سے ایک لیڈر
اپنے مخاطب کو اچھا فیصلہ کرنے کے لیے
رہنمائی کرتا ہے۔ کسی ٹیم ممبر کو صحیح فیصلہ کرنے کی کوچنگ دینا لیڈر کا بڑا اہم فن ہے۔
الغرض ، جب آپ اپنے کلائینٹ یا ٹیم ممبر ، کی بات واقعی سنتے ہیں — ان کے الفاظ، ان کے
جذبات و تاثرات، ان کے خواب — تو آپ ایک ایسا طویل مدت تعلق یا ایسی ٹیم بناتے ہیں جو نہ صرف کامیاب ہوگی بلکہ یکجان اور پرعزم بھی ر ہے گی۔ جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی بات سنی جا رہی ہے، تو
وہ زیادہ وفادار رہتے ہیں، بہتر کارکردگی دکھاتے
ہیں، اپنے علاقوں کی صورتِ حال کے مطابق زیادہ اختراعی خیالات لاتے ہیں، کلائنٹ
سےمضبوط تعلقات بناتے ہیں۔ ان علاقوں میں مذہبی عقائد
پر گامزن ہونے کے باعث شریعہ کے
مطابق مالی تحفظ کے مشن میں زیادہ سرمایہ کاری کروا سکتے ہیں۔ ان علاقوں میں فیملی
تکافل کی کامیابی کا راز ٹیکنالوجی، پروڈکٹس یا حکمت عملیوں میں نہیں — یہ لوگوںسے پُر اعتماد تعلق میں ہے۔ اور لوگوں کو سمجھنے
کے لیے، آپ کو پہلے ان کو سننا ہوگا۔ لہذا فننانشل ایڈوائزری / ویلتھ مینجمنٹ سے وابستہ لیڈروں کے لیے، سننے کی مہارت صرف ایک مہارت نہیں بلکہ کامیابی کی بنیاد
ہے۔


