Tuesday, October 7, 2025

#1 Success Formula in Rural Pakistan - Better Listening Skill. (Urdu Article)

 دیہی پاکستان میں مالیاتی اداروں کی کامیابی کا نمبر'۱' فارمولا:  بات  خُلوص سے سُننا

اگرچہ 'سننے ۔ Listening' کی صلاحیت،  لیڈرشپ کی اہم ترین صلاحیتوں   میں شامل ہے، میں نے اس بلاگ  کی ہیڈلائن میں بالخصوص 'دیہی پاکستان ' کا نام کسی وجہ سے لکھا ہے۔  ہمارے قصبوں  اور دیہاتوں سے مالیاتی اداروں میں آنے والے متنوع  افراد  ، چاہے وہ  اندرونِ سندھ،  شمالی بلوچستان،  خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان یا جنوبی پنجاب سے ہوں، مختلف  زبانوں اور ثقافتوں  کے امین ہیں۔   اِن کو ایک مرتبہ آپ پر اعتبار ہو جائے، تو  خود غرضی ،بے مروتی اور بے دید پن کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ پانچوں انگلیوں کی طرح، یہاں بھی گنجائش ہے ہر 'منفی' پن کی، لیکن  ان علاقوں کے  قناعت پسند ، مان سمان دینے اور چاہنے والوں  کو  وابستہ رکھنے کیلئے، آپ کی توجہ اور اچھی سماعت ، آپ کے قابل اعتماد دوستوں کی تعداد میں خاظر خواہ اضافہ  کردیتی ہیں۔

ماضی قریب میں ،میرپورخاص میں فیملی تکافل برانچ کے ایک مینیجر ، وسان صاحب  نے کئی سال پرانا   ایک واقعہ  سنُایا۔  ایک نیاکنسلٹنٹ اُن کے پاس آیا  جو اپنی تکافل ڈسٹری بیوشن  کی پریکٹس میں درپیش مشکلات کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔ "میں نے اُس کی  مشکل  کا ذکر آتے ہی اُسے حوصلہ دیا کہ ایک دن میں صرف اُس دن کے آسان ہدف  پر توجہ دیں۔  ایک کال کے بعد  دوسری کال تک  اُس وقت تک بڑھیں حتیٰ کہ ایک  اپوانٹمنٹ طے ہوجائے۔  جب ایک نئے کلائنٹ سے میٹنگ ہو جائے تو  اگلے ریفرل  کو حاصل کریں۔ "   وسان صاحب کو یقین تھا کہ ان کی  حوصلہ افزائی والی ترکیب اُسے ایک کامیاب  کنسلٹنٹ بننے کے راہ پر گامزن کر دے گی۔ اس کے بجائے، وہ  نیا  کارکن اسی ہفتے کے آخر میں اُن سے جُدا ہو گیا۔   وسان  صاحب کو اب یہ یقین ہے کہ اگر وہ اسے کچھ بتانے سے پہلے اُس  کی  کیفیات اور خدشات کو کھلے دل سے سنتے تو شاید وہ نیا کارکن تکافل مشاورت کے عمل  کو زیادہ مثبت طریقے سے دیکھ پاتا۔

جس  طرح 'بات کرنے کی تمیز ' کا طعنہ ہوتا ہے، کاش 'بات سُننے کی تمیز' کا بھی عام ہوتا! فنِ سماعت یعنی سننے کا حوصلہ پیدا کرنا   آسان ہنر نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ اپنی سننے اور قیادت کی صلاحیتوں کو بڑھانے  کیلئے خاصی مشق اور تجربہ درکار ہوتا  ہے۔   اندرونِ ملک  کی ٹیموں میں جہاں گرمجوشی اور ولولہ  انگیز خطابات  سننے کو ملتے ہیں ،  وہیں انتہائی حساس اور جذباتی ردِ عمل بھی  فوری طور پر آجاتا ہے۔ لہذا اپنے   آپ کو ہر طرح کی آوازوں کیلئے  ہمہ تن گوش رہنے کا معمول  (یعنی New Normal) بنائیے۔  بقول عباس رضوی،  

میں جو چپ تھا، ہمہ تن گوش تھی بستی ساری

اب مرے منہ میں زباں ہے کوئی سنتا ہی نہیں

۲۰۱۰ کے  آس پاس، نوابشاہ میں   مسعود مستوئی صاحب نے لوکیشن ہیڈ کی پوزیشن سنبھالی۔  مسعود  صاحب  نے ایک پرائمری ٹیچر کو   کنسلٹنٹ کے طور پر اپنی ٹیم کا حصہ بنایا، جو کئی کوارٹرز تک بزنس لانے میں  کامیاب رہے۔، جس کی وجہ  مستوئی صاحب  کے بقول ماسٹر سائیں کی عام  لوگوں کی بات کو سننا،  اُن کی باڈی لینگوئیج کو کاپی کرنا اور تمام  مقامی ترجیحات اور پہلوؤں  کو  اپنی ملاقات اور گفتگو کا حصہ بنانا تھی۔  کوئی  کنسلٹنٹ ہو یا کلائنٹ ،  ، جب کوئی آپ  کے پاس کسی سوال یا تشویش کے ساتھ آئے ، تویہ  یقینی بنائیں  کہ آپ  کے پاس سننے کے دوران کوئی پریشانی  یا خلفشار نہ ہو۔  بشمول  مخاطب سے اپنے  بغض یا  موضوع پر  پہلے سے قائم اندرونی رائے  کو نظر انداز کرنے کے علاوہ اپنے موبائل فون، کمپیوٹر سے نگاہیں ہٹا کر ، مخاطب پر توجہ دینا بھی  ضروری ہوتا ہے ۔

فنِ سماعت  کی کمزوری میں نامناسب روئیے کا کردار:

جس طرح نظر ، پٹھے اور یاداشت عمر بڑھنے سے کمزور ہوسکتے ہیں  ، یقیناً ، سماعت بھی ہوتی ہے،   البتہ سننے  یا سماعت کے فن کے حوالے سے میرا پاکستانی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ہمارے ہاں اکثر   پروموشن،  عہدوں اور اوقات میں  اضافے کے ساتھ 'دوسروں کی سننے' میں دِقت  پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسرے اداروں کے بڑے عہدوں  سے ایک دو درجے اوپر آنے والے افسران کی جہاں باقی تمام خوبیوں کی تصدیق  کی جاتی ہے،   کیا ہی اچھا ہوتا کہ اُن کے سابقہ  اداروں میں  اُن کے روئیوں Behavior کا بھی  پتہ کرلیا جائے!

ہم فائنینشل سروس انڈسٹری  میں اخلاق، انکساری اور ایثار پر مبنی ماحول میں   مطلق العنان   آمر سپروائزر  کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔اکژ   چھوڑ کر جانے والے اپنے سپروائزر کی    ذاتی رعونت، اننانیت اور عہدوں کا زعم اور احساس برتری  کے روئیوں کی شکایت کرتے ہیں۔    ہمارے شہری علاقوں کی نسبت   دیہی پاکستان میں  'افسران' کے ایسے روئیے  زیادہ  نمایاں ہونے کی ایک بڑی وجہ وہاں موجود دیگر سماجی کرداروں  سے مسابقت  ہوتی ہے۔ افسری  کا گھمنڈ  سرکاری محکموں  میں بھی  اچھا نہیں لگتا،  یہ کس طرح سے مالیاتی اداروں میں عوامی خدمت  پر مامور افراد  کیلئے مناسب ہوسکتا ہے؟  ایسے کردار سنتے نہیں  سنُاتے ہیں، اور وہ بھی اپنی روداد اور مطالبات۔ اپنی   کارکردگی، نتائج اور قول و فعل کا   محاسبہ تو درکنار، اپنی ٹیم  کی پیشہ وارآنہ  ضروریات  پر بھی توجہ  دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔  لہذا ایسے روئیوں کی نشاندہی خود ایسے کرداروں کی اصلاح کیلئے ضروری ہے۔

لیڈرز کی ذاتی الجھنیں اور  مصروفیات بھی  سُننے کو مشکل بناتی ہیں۔ کبھی کبھی لیڈر  اپنے جواب پر اتنے مرکوز ہوتے ہیں کہ وہ  مکمل طور پر نہیں سن سکتے،وہ   اپنے ذہن اور اپنی زندگیوں میں مصروف ہو سکتے ہیں، اور وقت نہیں نکالنا چاہتے۔  دوسرے اوقات سننا  اس لئے مشکل ہوتا ہے کیونکہ یا تو لیڈر کو جواب نہیں معلوم یا موضوع  اُن کے لئے حساس ہے اور وہ  اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔  لیڈرز کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ٹیم ممبرز کو سنُے جانے کا موقع دیں، تاکہ وہ بلا روک ٹوک اپنے جذبات اور خیالات شیئر کرسکیں۔اگر آپ اُن  کی گفتگو کی توثیق نہیں کرتے اور شخص کو سنُنے کا موقع ہی  نہیں دیتے، تو وہ مایوس ہو جائیں گے اور اپنا  صلاحیتوں کا اظہار نہیں کریں گے ۔

فن ِ سماعت میں بہتری کے طریقے:

۱۔ پہلے سنیں، آخر میں بولیں: سپروائزر/لیڈر  کو اکثر یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ اُن کی پوزیشن کا تقاضا ہے کہ وہ  زیادہ سے زیادہ خطاب فرمائیں یعنی ہر مکالمے  کو بحث میں تبدیل کرتے ہوئے  حاضرین پر غالب رہیں۔   لیڈر کے  سب سے پہلے بیان دینے یا تبصرہ  کرنے سے پوری گفتگو کا   رنگ ڈھنگ  ہی بدل جاتا ہے، جو  خود سوال اور خود جواب کی کیفیت بنا دیتا ہے۔ لیکن جب لیڈر سننے کے لیے فراخ دلی سے وقت دیتا ہے، تو ٹیم ممبرز اپنی تشویش اور خدشات کا اظہار کرتے ہیں، جو اُن کی الجھنوں میں کمی کا موجب ہوتا ہے ۔  اچھی فنِ سماعت کا تقاضا یہ  کہ حاضرین کے بیان کا حل تلاش کرنے میں عُجلت کی بجائے، سوالات پوچھ کر  ٹیم ممبران کو درپیش صورتحال یا تشویش کو واقعی سمجھنے کی کوشش  کی جائے۔ پھر  آپ  کے بیان یا   جواب  کے،( جو ٹیم ممبران    کے پورے موقف کو   سننے کے بعد)  آنے سے   اختلافات  کم سے کم ہوجاتے ہیں۔

۲۔ معلوماتی بیان سن کر  اُس کی  تصدیق کریں: یاد کیجئے، کتنی مرتبہ کسی نے آپ سے کہا ' نہیں، میں نے یہ تو نہیں کہا تھا/آپ میری بات سمجھے نہیں/میرا یہ مطلب تھوڑی تھا!'  اس کیفیت کی وجہ سے بات کہنے والے کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ آپ کے بارے میں یہ  کہے کہ 'انھوں نے اپنی طرف سے بات کی۔۔۔'۔  یہ مسئلہ اُس وقت حساس ہوجاتا ہے، جب سننے والے پاکستان کے  بڑے شہر سے ہوں، اور سُنانے والے  دیگر علاقوں سے۔ لہجے، تلفظ، انداز گفتگو کا فرق مفہوم کو کچھ کا کچھ بناسکتا ہے۔ اس کیلئے پوری توجہ سے بات سُن کر، اُس بات کو دہرا کر یہ پوچھیئے ، 'آپ کا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ۔۔۔(آپ کو سمجھ میں آنے والی بات کا ذکر)' ۔ اس طرح سے مطلب مفہوم کی تصدیق سے  آپ اُن کا اعتماد حاصل کر سکیں گے۔  یہ ایک ایسا ضروری عمل ہے، جو اُس وقت خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے، جب آپ کو ایک ٹیم ممبر /کلائنٹ کی بات کو سننے کے بعد کسی اور کو وہ معلومات پہنچانی ہوں۔

  ۳۔  مسائل کو سُن کی ممکنہ حل کی رہنمائی کریں:   اپنی ٹیم سے ہمیں صرف معلوماتی مواد (حقائق، اعدادوشمار، ذاتی رائے، مفروضہ وغیرہ ) ہی نہیں سننے کو ملتا ہے، بلکہ بسااوقات سننے والے مواد کی نوعیت شکایات، مطالبات  اور مسائل   پر مبنی ہوتی ہے۔ اچھا لیڈر اِس نوعیت کے مواد کیلئے   مخاطب سے  گفتگو کی منظم ترتیب Organized Sequence کے تحت سوالات پوچھتا ہے۔  پہلے مسئلے کا احوال، پھر اُس کی (مخاطب کے مطابق) وجوہات/اسباب اور آخر میں  ممکنہ حل/سفارشات پر رضامندی کا حصول۔  اس اندازِ سماعت سے ایک  لیڈر اپنے مخاطب  کو اچھا فیصلہ کرنے کے لیے رہنمائی کرتا ہے۔  کسی ٹیم ممبر  کو صحیح فیصلہ کرنے کی کوچنگ دینا لیڈر کا  بڑا اہم فن ہے۔

الغرض ، جب آپ اپنے کلائینٹ یا ٹیم ممبر ،  کی بات واقعی سنتے ہیں — ان کے الفاظ، ان کے جذبات و تاثرات، ان کے خواب — تو آپ ایک ایسا طویل مدت تعلق  یا ایسی ٹیم بناتے ہیں جو نہ صرف کامیاب ہوگی  بلکہ یکجان  اور پرعزم بھی ر ہے گی۔ جب وہ  محسوس کرتے ہیں کہ ان کی بات سنی جا رہی ہے، تو وہ  زیادہ وفادار رہتے ہیں، بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں، اپنے علاقوں کی صورتِ حال کے مطابق زیادہ اختراعی خیالات لاتے ہیں، کلائنٹ سےمضبوط تعلقات بناتے ہیں۔  ان علاقوں میں  مذہبی عقائد  پر  گامزن ہونے کے باعث شریعہ کے مطابق مالی تحفظ کے مشن میں زیادہ سرمایہ کاری کروا سکتے ہیں۔ ان علاقوں میں فیملی تکافل کی کامیابی کا راز ٹیکنالوجی، پروڈکٹس یا حکمت عملیوں میں نہیں — یہ لوگوںسے پُر اعتماد تعلق  میں ہے۔ اور لوگوں کو سمجھنے کے لیے، آپ کو پہلے ان کو سننا ہوگا۔ لہذا فننانشل ایڈوائزری / ویلتھ مینجمنٹ  سے  وابستہ لیڈروں کے لیے، سننے کی مہارت صرف ایک مہارت نہیں بلکہ کامیابی کی بنیاد ہے۔

Sunday, October 5, 2025

Managers, Please don’t Blame Company or Money for Losing Top Talent (Urdu Article)

 


جب بہترین ٹیلنٹ چھوڑ جائے تو  کمپنی اور پیسے کو الزام نہ دیں!

کیا لوگ نوکری چھوڑ تے  ہیں، یا  اپنے سپروائزر /'بوُس 'کو؟  اس سوال کو نظرانداز کرنا کسی بھی ادارے  کی افرادی قوت کیلئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔  ملک بھر   میں فیملی تکافل کی صنعت میں باصلاحیت سیلز ایجنٹس کا روٹھ کر  جانا  تمام تکافل اداروں کیلئے مالی اور آپریشنل دونوں لحاظ سے مہنگا  سودا  ہو تا  ہے۔ اس سر درد میں نہ صرف بھرتی، آن بورڈنگ اور تربیتی اخراجات شامل ہیں، بلکہ ادارے سے وابستگی کے دوران حاصل ہونے والے عملی تجربے  کی سیکھ کا نقصان بھی ہے جو رخصت ہونے والے قابل  ایجنٹ یا مینجر  کے ساتھ چلا جاتا ہے۔  مالیاتی خدمات/ فننانشل ایڈوائزری  کے ہوشیار لیڈرز اپنے بہترین کارکنوں کو  اپنی ٹیم اور ادارے کے ساتھ برقرار رکھنے کے لیے فعال اقدامات کرتے ہیں۔

نوکریوں کی تلاش  کی  دو اہم ویب سا ئٹ'  گلاس ڈور اور لنکڈان'  کی تحقیق کے مطابق،  نوکریاں چھوڑنے والے لوگوں کے۳۴ ملین آن لائن پروفائلز کے  جائزے میں ، لوگوں کے جانے کی بنیادی وجہ اپنے سپروائزر کے ساتھ رابطے کی کمی  کو قرار دیا گیا تھا ۔ پیسہ کافی پیچھے،  (۱۶)سولہویں نمبر پر تھا۔ واضح الفاظ میں، زیادہ تر لوگ کمپنی کی وجہ سے  کام نہیں چھوڑتے؛ وہ اپنے سپروائزر  کی  ناقص رہنمائی اور مدد  کی وجہ سے کام چھوڑنے  پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

لاہور میں مقیم میرے ایک ریجنل مینیجر  ٹریننگ اینڈ  ڈیویلپمنٹ   نے بھی  ایک سروے  کیا، جس سے بہت اہم  نکات اُجاگر ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ دس میں سے سات ملازمین مالیاتی ترقی، کیرئر  کی ترقی اور کاروباری  پیش رفت کی توقعات کا اظہار کرتے  ہیں — وہ ابتدائی ایک دو ماہ  میں  فعال طور پر کہیں اور جانے کی تلاش میں نہیں ہوتے  ہیں۔ وہ دراصل یہ بات یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ جو وہ کر رہے ہیں، اس کا مقصد اور معنی  اُن کی شخصیت اور کام کی قدر میں   اضافے کا باعث ہو۔  دورانِ  ملازمت ایک سیلز ٹیم ممبر کا  اطمینان، عام طور پر چار چیزوں پر مبنی ہوتا  ہے: ترقی کا موقع، منصفانہ معاوضہ، ٹولز اور وسائل، اور خودمختاری۔ ملازمین کے چھوڑنے کی وجوہات پر تازہ ترین ڈیٹا لاہور یا پنجاب سمیت پورے ملک  کی دیگر برانچوں کے فیملی تکافل لیڈروں کو نئی راہِ عمل دے سکتا ہے۔

اس ایجنٹ ریٹینشن کیلئے ، کسی بھی لیڈر کا   پہلا قدم ریکروٹمنٹ کے وقت یہ نوٹ کرنا ہے کہ ریٹیل سیلز ایجنٹ یا  مینیجرز اپنے کیرئر  یا  دراصل اپنی ملازمتوں سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔ اس ریکارڈ کی بدولت ٹیم ممبران کی  کیرئر کی ترقی کے مراحل بھی  مدِ نظر رکھے جاتے ہیں بلکہ جب وہ اپنے وقتِ رخصت کا اعلان کریں تو  'رخصتی انٹرویو أ Exit Interview'  جو کہ لیڈر کے علاوہ  کسی اور سینئر  کی زیر ِ نگرانی ہو ،  اس میں یہ دیکھا جانا چاہیئے کہ جانے والے کے چھوڑنے کے پیچھے توقعات کے پورا ہونے نہ ہونے کے  علاوہ اور کون کون سے  مسائل کارفرما تھے، جن کے باعث چھوڑنے کا انتخاب کیا جار ہا ہوتا ہے۔ یہ عمل بہت سےقابل افراد  اور وسائل کے ضیاع سے بچا سکتا ہے۔

برانچ  کے مثبت ماحول  کیلئے تجاویز

مارچ  ۲۰۲۰   کے آخر میں کرونا کی وبأ کے باعث لاک ڈاؤن سے پاکستانی معیشت عالمی معیشت کی نسبت  کم متاثر ہوئی۔ البتہ  اُس وُبا کے بعد،   اداروں کے کام کے ماحول اور لوگوں  کے مزاج اور  ورک پلیس انگیجمنٹ کے روئیے  خاصے متاثر ہوئے۔  بلخصوص، نئی نسل  'جنریشن زی' کے موڈ پر خاصی بحث ہورہی ہے۔ ٹیکنالوجی، آرٹیفیشل انٹیلیجنس  کی آمد،  وائٹ کالر  جاب مارکیٹ پر اے-آئی کے اثرات  کو سوچتے ہوئے، مالیاتی ترقی، کیرئر  کی ترقی اور کاروباری  پیش رفت  پر خدشات نے  افرادی قوت کو   الجھنوں کا شکار کیا ہے۔  ایسے ماحول میں لیڈرز نئے ٹیلنٹ کو راغب کرنے اور نئے ملازمین کو تربیت دینے کی حکمت عملی تشکیل دینے میں کافی وقت اور دماغی طاقت خرچ کئے بغیر  کامیاب  نہیں ہوسکتے ہیں ۔  لیکن مسئلہ ہے، ایسے لیڈر کم ہیں جو پیشہ وارانہ محنت اور توانائی کو ٹیم کی کامیابی کیلئے  لگا رہے ہیں۔

ایک تعلیم و تربیت یافتہ مینجر   ہی مینجمنٹ  کے  بہت سے ٹول ، جن میں  'آن-بورڈنگ، آورینٹیشن، فیلڈ کوچنگ، پرفارمنس  مینجمنٹ، اپریزل اور کیرئر ڈیولپمنٹ ' کو بروئے کار لاتا ہے۔ ایک عام غلطی یہ ہے کہ ناتجربہ کار  کی بجائے تجربہ کارنئے لوگوں کو ملازمت پر رکھ کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ 'نئے تجربہ کار 'ٹیم ممبر کا سیلری پیکیج ہی  سیلز ٹارگٹ پورا کروائے گا، لہذا سپروائزر  کو  ٹیم کی کامیابی کیلئے پیشہ وارانہ محنت اور توانائی  لگانے کی بجائے ،ا یک  پُرسکون ہنی مون  کا لطف  اُٹھانا  چاہیے۔  جبکہ  ایک تجربہ کار نئے ریکروٹ پر بھی  کمپنی کے وژن اور سسٹم  سے واقفیت  اور ہم آہنگی  پر اُتنی ہی پیشہ وارانہ محنت اور توانائی  لگانے کی  ضرورت ہوتی ہے، جتنی ایک ناتجربہ کار نئے فرد کیلئے  لگانا  ضروری ہو۔ 

 بصورت، دیگر   'بریانی  اور قیمے والے نان'  کی تواضع سے کامیاب ہونے والے سیاسی لیڈران سے متاثر ہ، کم علم  مالیاتی سپروائزر   بھی 'مٹن کڑھائی، سجی، اور بوفے ' کی دعوتوں کو لیڈرشپ  کا بنُیادی اور اکلوتا فرض سمجھتے ہیں۔  نوکری کا آغاز  ہو، کامیاب بزنس ٹارگٹ  ہو، یا روٹھے ہوئے کو منانا ہو ، 'دعوت کلچر ' کا  واحد ٹول برؤےکار لایا جاتا ہے۔  اس طرزِ عمل سے ماحول نہیں بنا کرتے۔  نئی نسل ، جو موبائل نیٹ پر فوڈ پانڈا کو  آرڈر دے کر  روزانہ دعوت  انجوائے کر سکتی ہو، وہ    کس طرح سے  دعوت کلچر کو  اپنی پیشہ وارانہ ترقی  کا ضامن سمجھ سکتی ہے؟

ٹیلنٹ کو مشغول اور برقرار رکھنے کا ایک ہی  طاقتور طریقہ ہے  کہ تعلیم و تربیت یافتہ مینجر ہوں، جو  مینجمنٹ  کے  ٹولز کی بدولت عملی نتائج سے  مثبت ماحول بنائیں۔  پروفیشنل ازم  ہی  کلچر کی بنیاد ہونی چاہئے، ورنہ برانچ  سسٹم میں موجود ایجنٹ اور  مینیجرز اپنے کام ، زندگی کے مقصد اور ڈھانچے پر نظر ثانی کرتے نظر  آئیں گے۔

۱۔ 'میں ' کی بجائے 'ہم '  کو فروغ دیں:  آپ یقیناً چاہتے ہیں کہ تمام ٹیم ممبرز خوش اور مطمئن محسوس کریں، لیکن کسی ایک کو لاڈپیار  کی ہر حد سے گزر کر سپورٹ کرنا، جبکہ کسی اور کے  جائز مفادات اور مطالبات کو نظرانداز یا مسترد کرنے سے 'بُوس' تباہی کی بنیاد رکھ دیتا ہے۔ منصفانہ انعام و اکرام   equitable rewards کی بدولت ٹیم ورک  کی روح بیدار ہوتی ہے۔  'سب کی کامیابی، میری کامیابی' کے اصول پر گامزن سپروائزر ہر سیلز  ایجنٹ  یا مینیجر کے تعلق، قدر اور مشترکہ عزم کے احساس پر زور دے کر ربط پیدا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

۲۔ اپنے ادارے کے ساتھ ان کے کامیاب مستقبل کا تصور کرنے میں مدد کریں: مینجمنٹ میں  آرگنائزیشن فنکشن  کا ایک  پہلو  “Span of Control” اس پہلو کو اجاگر کرتا ہے کہ ہر مینیجر کی  براہ راست اپنی  افرادی قوت کو  مینیج کرنے کی ایک حد ہوتی ہے۔  اپنی برانچ میں صرف  تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیلئے   پروموشن  لینے کے بعد جب  آپ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی خدمت نہیں کر  پاتے تو ورک کلچر برباد ہوجاتے ہیں ۔  لہذا  جب تک کہ آپ  اپنے ماتحت افراد کو براہ راست سپورٹ میکینزم  کے مضبوط  اور منصفانہ ہونے کا احساس نہیں دلواتے،  اُنھیں آپ کے ساتھ مستقبل  نہیں دکھتا۔  آپ کی لیڈرشپ  میں اُن کے پاس کیریئر کے کیا مواقع ہیں؟ آپ وہاں پہنچنے میں ان کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟ کسی بھی لیڈر کا   کیرئر سیلنگ کا  بہترین طریقہ یہ  بتانا اور یقینی بنانا ہے کہ وہ اپنے  آنے والے ریکروٹ کے کامیاب  مستقبل  میں معاون بن سکتے ہیں۔ آپ کے سابقہ /موجودہ ٹیم ممبران  کی حقیقی رائے کہ  کس طرح  ان کے مستقبل اور کیرئر کی ترقی کو آپ کی سربراہی نے ممکن بنایا،نئے آنے والوں کو اپنے  کامیاب مستقبل کی  امید دلواتی ہے۔  

۳۔ فیملی تکافل کے مشن سے  نسبت کو اپنائیں: تکافل ایک مذہبی اور اخلاقی بنیادوں پر قائم کلچر Work Ethics کا تقاضا کرتا ہے۔  پاکستان میں ۲۰۰۵ کے بعد سے تکافل کے اداروں کے قیام اور کام  سے بتدریج  یہ بنیادیں مضبوطی  کی جانب گامزن ہیں۔  اس ابتدائی دور میں  تکافل سے وابستہ مینجر اور ایجنٹ( جن کی بڑی تعداد روائیتی انشورنس کی  انڈسٹری سے  آتی جاتی رہی ہے ) انتہا پسندانہ  مزاج (ادھر ہم ، اُدھر تم)  کی دل آزاری سے گزرتے گزرتے اب معتدل مزاج روئیوں کی جانب آچکی ہے۔اب   جب کوئی  'شریعہ کمپلائنٹ مالیاتی معاملات' کا  زکر کر رہا ہوتا ہے، تو  اُدھر والے بھی برا نہیں مناتے، کیونکہ وہاں بھی معاملات  'طیب'  ہونا شروع ہوئے ہیں۔  خیر، شریعت میں  برکت، اور اس مشترکہ امداد باہمی کے وقف وکالہ نظام کے اخلاقی اُصول دیگر مذاہب کے پاکستانی پیروکاروں کو بھی اس مشن سے نسبت  میں فخر کا باعث  ہیں۔ سچائی، دیانتداری پر مبنی  تکافل ٹیموں کی مالیاتی مشاورت اور عوام کو ہونے والے حقیقی فوائد سے ہم سب اہلیانِ تکافل انڈسڑی کا  کامیاب مستقبل وابستہ ہے۔


Friday, October 3, 2025

How to get Maximum Productivity from your Agents; Communicating Performance Expectations & Practical Guidelines (Urdu Article)

 


اپنے ایجنٹس سے بہترین نتائج حاصل کریں

کارکردگی کی توقعات پر بات چیت اور عملی رہنمائی فراہم کرنے کا طریقہ

ایک مینیجر کیلئے اپنی ٹیم  کی ناقص کارکردگی کو  بہتری کی طرف لانا ، فیملی تکافل  انڈسٹری  میں ایک بڑا چیلنج  ہوتا ہے۔ مثلاً ، آپ نے اپنے نئے فیملی تکافل ایجنٹوں  کے ساتھ اہداف طے کر لیے ہیں، ٹیم کی ویژن کا جائزہ لیا ہے، اور رول پلے اور اسکرپٹنگ کے ذریعے تکافل پروڈکٹس کی تفصیلات سمجھائی ہیں۔ لیکن وہ گزشتہ دو ماہ سے اپنے ہدف کو پورا نہیں کر پا رہے، اور اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ ان کی  علم و عمل کی  کمی کو اس انداز میں واضح کریں جو انہیں مایوس کیے بغیر دوبارہ صحیح راستے پر لے آئے۔ یہیں پر کارکردگی کی توقعات اور باقاعدہ، عملی رہنمائی کا کردار  اہم  بن جاتا ہے — ایسی توقعات اور گفتگو جو محض سیلز نمبرز سے آگے بڑھتی ہیں۔

چونکہ میں زیادہ تر کراچی  ہیڈ آفس  اور ملحقہ برانچوں میں  ٹیموں سے ملتا ہوں۔ تو  کراچی  جیسے مصروف شہر میں، جہاں فیملی تکافل کے اکثر   برانچ  مینیجرز اور  ٹیم ممبرز  اپنی ذاتی پیداوار میں توازن  لانے ، توقعات طے کرنے اور بہتری کے لیے رہنمائی فراہم کرنے  اور ایجنٹوں کی انفرادی رہنمائی  کیلئے وقت  نکالنا Time Manage کرنا ا یک چیلنج  سمجھتے ہیں ،  وہیں  ان ٹیموں میں ہی وہ رول ماڈل  بھی ہوتے ہیں ، جن کا علم اورعمل  دوسروں کے اصلاح احوال  کے عمل کو آسان بنا سکتا ہے ۔   آئیے، ایسے ہی ایک رُول  ماڈل کی حکمت عملی کے اہم نکات   پر نظر ڈالتے ہیں:  

۱۔ گفتگو کو مثبت انداز دیں

کراچی کی ایک کامیاب فیملی تکافل  برانچ  کی سربراہ عائشہ، جو  تیس  رکنی ٹیم کی قیادت کرتی ہیں، کہتی ہیں: "میں کوشش کرتی ہوں کہ ایجنٹ سے بات کہنے سے  پہلے یہ دیکھوں کہ اگر اُن   کی  جگہ میں ہوتی تو  میں اپنے   سینئر کی جانب سے   مجھ  سے بات کرنے، میرا ذکر کرنے اور میری  عملی رہنمائی  کرنے کے کس انداز کو پسند کرتی؟ "

اپنی ٹیم کے  ایجنٹس پر اُن کی کوتاہیوں کی  تنقید  کرنے کی بجائے، عائشہ  بہتری اور کامیابی کے مواقع  بڑھانے پر بات کرتی ہیں۔ وہ کارکردگی کے بارے میں کسی بھی گفتگو کو مثبت نوٹ پر ختم کرنے کا خاص خیال رکھتی ہیں۔  "میں کچھ ایسا کہتی ہوں، 'اگر آپ اس صلاحیت اور علم پر عمل کر سکیں، تو آپ ایک طاقتور فورس بن جائیں گے۔ آئیں یہ کام کر دکھائیں۔"

کارکردگی میں بہتری  کے اہداف اور اُن  کی توقعات کیسے طے کریں، کب رائے دیں، غلط فہمیوں کو کیسے دور کریں اور کیا کہنے سے گریز کریں — یہ سب  ایک مینیجر کی کمیونیکیشن /ابلاغیات  میں مہارت کا تقاضا کرتے ہیں۔

واضح توقعات طے کریں

کارکردگی کے اہداف اور میٹرکس ، جو  کارکردگی کی تشخیص کے معیار پر مشتمل ہوں، کے   بارے میں ٹیم ممبرز کو  واضح معلومات فراہم کرنا بہت ضروری  ہوتا ہے، ۔  عائشہ کو ٹیم کی ویژن کے ساتھ کارکردگی کی توقعات پربات شروع کرنا پسند ہے ، تاکہ ٹیم ممبرز کامیابی کا راستہ تلاش کر سکیں۔  عائشہ کہتی ہیں: "ٹیم کو دکھائیں کہ آپ نہ صرف انہیں اعلیٰ معیار پرپرکھ رہے ہیں، بلکہ آپ اپنی  کارکردگی کو خود  بھی اُسی معیار پرپرکھتے  ہیں۔"   جب بھی مینیجرز اپنے اہداف  اپنی ٹیم ممبرز کے ساتھ شیئر کریں تو  وضاحت کریں کہ وہ یہ مقاصد کیوں طے کر رہے ہیں۔  یہ ضروری ہے کہ ٹیم ممبرز  یہ جانیں کہ دوسرے ٹیم  ممبر  کس چیز پر کام کر رہے ہیں۔ کارکردگی کی توقعات طے کرتے وقت، یقینی بنائیں کہ صرف پیداوار کے نمبروں سے آگے،ٹیم ممبران کی ذاتی ترقی اور کامیابی پر بھی  توجہ دی جائے.

 ہر سال، عائشہ پچھلے سال کی سرگرمیوں کی بنیاد پر ایک تفصیلی رپورٹ  اور نئے سال کی پلاننگ  تیار کرتی ہیں، جن میں   وہ ٹائم مینجمنٹ اور ٹیم کی ذاتی ترقی کے اہداف شامل کرتی ہیں۔ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ جن تیس ایجنٹس کو وہ منیج کرتی ہیں وہ ان اہداف کی طرف بڑھ رہے ہیں، ہر دو ہفتوں میں ہر ٹیم ممبر کے ساتھ ایک گھنٹے کے لیے ون آن ون ملتی ہیں تاکہ ان کے اہداف حاصل کرنے کے طریقے پر بات کریں۔  "اہداف طے کرنا اور سال میں ایک بار ان کو دیکھنا کافی نہیں ہے،" انہوں نے کہا۔ "آپ کو ہمیشہ ان کے بارے میں بات کرنی ہوگی۔"

غلط فہمیوں کا  تدارک

واضح توقعات قائم کرنا ایجنٹس اور لیڈرز کے درمیان غلط فہمیوں کو روکنے میں بہت مددگار ہوتا  ہے، لیکن محض توقعات قائم کرنے سے اختلافی  امور ختم نہیں ہوا کرتے۔ ایک عام صورتحال ایجنٹس یا لیڈرز کی کامیابیوں سے  متعلق عدم اطمینان کا اظہار ہوتا ہے۔ عائشہ  کہتی ہیں: "توقعات کے بارے میں زیادہ غلط فہمی نہیں ہوتی۔" بلکہ ، بحث اکثر اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ آیا ٹیم ممبرز اپنے نتائج سے خوش ہیں۔ جب ایجنٹس اپنے اہداف سے پیچھے  رہ جاتے ہیں، تو  عائشہ  انہیں ہدف  کے حصول   کا راستہ پیش کرتی ہیں تاکہ وہ سال کے لیے اپنا ہدف پورا کر سکیں۔ عائشہ کہتی ہیں: "یہ زیادہ آگے بڑھنے کے بارے میں ہے، کیا بہتر کیا جا سکتا ہے، انہیں کس چیز پر توجہ دینی چاہیے، انہیں کون سی اہم سرگرمیاں کرنی چاہئیں" ۔

  عائشہ کے زیر انتظام  ایجنٹس میں سے زیادہ تر اپنے سیلز اہداف  سے ذاتی وابستگی محسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ وہ نمبر ہے جو انہوں نے سال کے آغاز میں خود طے کیا تھا۔ عائشہ کہتی ہیں:"اُن کے ہدف کا نمبر وہ  ہے جو وہ  حاصل کرنا چاہتے ہیں، کوئی ایسی چیز نہیں جو میں نے  اُن کے حلق میں اتاری ہو،  بلکہ  یہ  اُن کے ذاتی مقاصد  سے جڑا ہے جو وہ اپنے لیے، یا خاندان یا کیریئر کی خواہشات  سے وابستہ  کرتے ہیں۔"

جب ٹیم ممبرز اپنے نتائج سے مطمئن نہیں ہوتے، تو ان سے بات کرنا ضروری ہے کہ وہ کیوں کمزور  پڑ رہے ہیں،   عائشہ نے کہا۔ "اصول یہ ہے کہ میں ان کی مدد کر سکتی ہوں اگر وہ وہ سب  کریں جس  کی تربیت اور منصوبہ بندی   ہوئی ہے۔ اگر  کوئی عمل کیلئے تیار ہی  نہیں، تو میں اُس شخص پر  کم وقت،  توانائی  اور  رہنمائی  فراہم کروں گی۔"

عائشہ اپنی ٹیم کے ساتھ اسی بنیادی طریقہ کار کو ہر سال  اپناتی ہیں۔ توقع یہ ہے کہ ایجنٹس اپنے اہداف حاصل کریں گے۔ اگر وہ نہیں کرتے، تو عائشہ ان کے ساتھ مل کر بہتری  کے معاملات  پر تربیت کرتی ہیں۔ "ان کی کامیابی میں مدد کرنا میری ذمہ داری ہے، لیکن انہیں مجھے بتانا ہوگا کہ انہیں بھی  عمل اور مقاصد میں دلچسپی ہے۔"

رہنما اپنی ٹیم کو  رائے کب دیں؟

اگرچہ ۹۲  فیصد کارکن  کہتے ہیں کہ وہ ترجیح دیں گے کہ اپنے مینیجر سے سال میں ایک بار سے زیادہ رائے حاصل کریں، لیکن ہر ٹیم ممبر اپنی  کسی  غلطی کے فوراً بعد رائے  اور رہنمائی کی تعریف نہیں کرتا۔  فوری رائے دینے کا فیصلہ ٹیم ممبر کے مزاج ، تربیت  ، انداز کلام  اور  ثقافت پر منحصر ہے، عائشہ  نے کہا۔ "رائے کو اس طریقے سے شیئر کرنا ضروری ہے جس سے وہ شخص اسے بہترین طریقے سے قبول کرے،" انہوں نے کہا۔ اکثر کوچنگ اور رہنمائی ہفتہ وار ون آن ون میٹنگ کے دوران بہترین طریقے سے موصول ہوتی ہے۔

عائشہ  کہتی ہیں:" میرا تجربہ یہ ہے کہ آپ کو جاننا ہوگا کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں، کچھ ملازمین تجزیاتی ہوتے ہیں اور کچھ جذباتی، لہذا یہ ضروری ہے کہ رائے اس انداز میں دی جائے جو ان کے لیے زیادہ قابل فہم ہو۔"

  عائشہ کے پاس رائے دینے کا کوئی طے شدہ  شیڈول نہیں ہے، وہ صورتحال کے مطابق طریقہ کو ترجیح دیتی ہیں۔ "کبھی کبھی مجھے فوری رائے دینی پڑتی ہے، تاکہ سب کو صورتحال سمجھ آئے،" انہوں نے کہا۔ جب ایسا ہوتا ہے، تو وہ  ایسا  کچھ بھی کہنے  کا خیال رکھتی ہیں جسے ایجنٹ اپنی  ذات پر حملے کے   طور پر لے سکتا ہے، لہذا  ان کے ساتھ ہونے والی  صورتحال کا تجزیہ کرتے کرتے اُن کی اصلاح  کو ترجیح دیتی ہیں۔

سرعام منفی رائے دینے سے گریز کریں

ٹیم ممبرز کو منفی رائے دینے سے  گریز  کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کچھ مثبت کہہ کر شروع کریں  ۔ عائشہ  ہمیشہ کسی ایسے کام کی   کامیابی کے  حوالے  سے  بات شروع کرتی ہیں جو ایجنٹ نے  کیا ہو۔ "میں وضاحت کرتی ہوں کہ جو میں کہنے والی ہوں وہ ان کی بھلائی کیلئے ہے، ان کے خلاف نہیں۔"   مینیجر کے لیے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس کا ارادہ کسی کو بہتر بنانے یا بہتر نتائج پیدا کرنے میں مدد کرنا ہے۔ عائشہ نے کہا، "انہیں بتائیں کہ یہ  بات  یا گفتگو  دراصل ان کی اپنی بھلائی کے لیے ہے، ان کو شرمندہ کرنے کے بارے میں نہیں"   ۔

اپنی رائے کو کارکن کی  سرگرمی پر مرکوز رکھیں، اُس  کی  شخصیت   پر نہیں۔  مثال کے طور پر، کبھی بھی کسی ایجنٹ کو  یہ نہ بتائیں کہ وہ اچھا کام نہیں کر رہا۔ بلکہ  وضاحت کریں کہ ان کی  موجودہ  سرگرمی اُن کے  نتیجے کو کیسے متاثر کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر، "جب آپ نے کلائنٹ سے وہ کہا، یہ وجہ ہے کہ آپ کا کام نہیں ہوا ۔"

عائشہ بھی منفی رائے دیتے وقت سرگرمی پر توجہ دیتی ہیں، شخص پر نہیں۔ کلائنٹ میٹنگ کے بعد، وہ ایجنٹ سے سوالات پوچھتی ہیں جیسے، "آپ کو کیا لگتا ہے کہ وہ میٹنگ کیسی رہی؟" اور "آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ مختلف طریقے سے کیا کر سکتے تھے؟"  وہ وضاحت کرتی ہیں کہ جس طرح انہوں نے بات چیت کی یا برتاؤ کیا وہ ممکنہ حد تک مؤثر کیوں نہیں تھا، اور مستقبل میں کیا مختلف کرنے کے بارے میں تجاویز فراہم کرتی ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی رائے مانگی جائے کہ وہ کیا مختلف کر سکتے تھے اور پھر اس پر بات کریں ۔ ایک وقت میں بہت زیادہ رائے دے کر کسی ایجنٹ کو مغلوب نہ کرنا بھی دانشمندی ہے۔ عائشہ نے کہا "اپنے آپ سے پوچھیں، اس لمحے، سب سے اہم چیز کیا ہے جس سے اس شخص کاآگاہ ہونا ضروری ہے۔"

 اپنی غلطیوں  کو  دہرانے سے بچیں

کسی ایجنٹ کی کارکردگی کے بارے میں بات کرتے وقت انفرادیت  سے کام لینا ضروری ہے، عائشہ نے کہا۔ "عوامی انداز  میں  بیانات الجھن کا باعث بنتے ہیں، لیڈر مسائل کیلئے ون۔ٹو۔ون میٹنگ میں   general  کی  بجائے  Specific بات  پر  زور دیتا ہے۔ "   اصلاح کرتے ہوئے موازنے کرنا   عام طور پر غیر مفید ہوتا ہے۔ عائشہ کسی ایجنٹ کی کارکردگی کا اپنی ماضی کی کارکردگی سے موازنہ نہیں کرتیں یا اپنی پچھلی کامیابیوں کو مثال کے طور پر استعمال نہیں کرتیں۔ "میں کبھی نہیں کہتی، 'جب میں ٹاپ پرفارمر تھی، میں نے یہ کیا،' یا 'جب میں نمبر 1 ایجنٹ تھی، میں نے یہ کیا'،" انہوں نے کہا۔ "یہ مثبت نہیں ہے۔"

کسی ایجنٹ کے ساتھ ان کی کارکردگی کے بارے میں بات کرتے وقت، عائشہ یہ تجویز کرتی ہیں کہ فیصلے سنانے  سے پرہیز کریں جب تک کہ ایجنٹ کو اپنا نقطہ نظر شیئر کرنے کا موقع نہ مل چکا ہو۔ ٹیم کے رکن  اور ان کے کام کے بارے میں متجسس رہیں۔ آخر میں، ایک مینیجر جو سب سے بڑی غلطی کر سکتا ہے وہ  یہ ہے کہ  ٹیم ممبر کے لیے اُس کی رضامندی  کے بغیر  اہداف طے کرنا ۔اگر میں انہیں اپنی مرضی کا   بزنس کا  نمبر دیتی ہوں، جو اُن کی طرف سے نہیں آ رہا ا تو یہ مدد نہیں کرے گا۔" ٹیم ممبرز کے ساتھ کاروباری افراد کی طرح سلوک کریں، انہوں نے کہا۔ "وہ یہاں ہیں کیونکہ وہ اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔" آپ کا کام ان کی مدد کرنا ہے۔ اگر وہ  ہر دن، ہر ہفتے، مہینے  اور کوارٹر میں آپ کی  توقعات پر مبنی  نمبر نہ لانے  میں  نااہلی کے طعنے سنیں گے، تو  آپ کی ٹیم کی ریٹینشن  کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آپ کی برانچ میں سناٹا ہوگا۔'

 خلاصہ

کراچی میں فیملی تکافل ایجنسی چلانا چیلنجنگ ہو سکتا ہے، لیکن صحیح کمیونیکیشن، واضح توقعات، اور با معنی رہنمائی کے ساتھ، آپ اپنی ٹیم کو کامیابی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہر ایجنٹ منفرد ہے اور انہیں ایک ایسے طریقے سے رہنمائی کی ضرورت ہے جو ان کی انفرادی شخصیت  کی  ضروریات کو پورا کرے۔  جب آپ اِن اصولوں پر عمل کرتے ہیں — مثبت فریمنگ، واضح توقعات، بروقت رائے، اور احترام کے ساتھ رہنمائی — آپ نہ صرف اپنے ایجنٹس کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں بلکہ ایک مضبوط، زیادہ مصروف ٹیم بھی بناتے ہیں جو  آپ  کے علاقے  میں  کفیلوں  اور اُن کے خاندانوں کو شریعہ کے مطابق مالی تحفظ فراہم کرنے کے مشترکہ مشن پر کاربند ہوں۔

#1 Success Formula in Rural Pakistan - Better Listening Skill. (Urdu Article)

  دیہی پاکستان میں مالیاتی اداروں کی کامیابی کا نمبر' ۱' فارمولا:   بات   خُلوص سے سُننا اگرچہ 'سننے ۔ Listening ' کی صل...