Thursday, January 14, 2021

کامیابی : موجودہ وسائل میں بہترین کارکردگی

Creator: ImpaKPro Credit: Getty Images/iStockphoto

 

گذشتہ سال ایک کتاب Die Empty کے عنوان سے سیلف ہیلپ کے موضوع پرمشہور ہوئی۔ کتاب کے مصنف Todd Henry نے تعارفی باب میں ایک  سبق آموز  واقعہ تحریر کیا ہے- مصنف کے ایک دوست نے سوال کیا، "آپ کے خیال میں  دنیا کا سب سے بیش قیمت خطہ کون سا ہے؟ "  کسی نے جواب دیا کہ نیویارک شہر کا علاقہ "مین ہیٹن"، کسی نے کہا کہ تیل کی دولت سے مالا مال مشرقِ وسطیٰ، تو کسی نے  جنوبی افریقہ کی سونے کی کانیں بتایا۔  اُس دوست نے کہا، "آپ سب  غلط ہیں،  دنیا کا سب سے قیمتی علاقہ 'قبرستان' ہے –  یہ وہ جگہ ہے، جہاں  انگنت  ناول اور کتابیں ہیں جو شائع نہ ہو سکیں،  وہ کاروبار اور ادارے ہیں جو شروع نہ ہو سکے،  وہ رشتے اور تعلقات ہیں جو  قائم  نہ  کئےجا سکے،    وہ لاکھوں ارادے ہیں جنھیں 'کل' پورا ہونا تھا، مگر پھر وہ (اچانک قبرستان میں آنے والوں کیلئے  )'کل'   کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔"  جو  ارادے اور ضروریات پوری نہ ہو سکیں، وہ زندگی کی  ناقابلِ حصول کامیابیاں تھیں۔

اب اس بات کو مزید  سمجھنے کیلئے  سقراط کا  واقعہ پڑھ لیجئے۔ سقراط سے ایک نوجوان نے "کامیابی کا فارمولہ" دریافت کیا، تو سقراط نے اُس نوجوان کو اگلی صبح دریا کے قریب ملنے کیلئے تاکید کی، تا کہ وہ اُسے کامیابی کا فارمولہ بتا سکے۔ جب اگلے روز وہ نوجوان سقراط کی بتائی ہوئی جگہ پر پہیچا، تو سقراط اُسے لے کر دریا کے کنارے چہل قدمی کیلئے نکلا۔ کچھ دور چلتے ہوئے اچانک سقراط نے نوجوان کو دریا میں اُس کے ساتھ داخل ہونے کو کہا۔ جب دونوں دریا میں اس قدر دور پہنچے کہ پانی اُن دونوں کی گردنوں تک پہنچا، سقراط نے نوجوان کو دبوچ کر پانی کی سطح سے نیچے ڈوبا دیا۔ اُس نوجوان کو اُس وقت تک زبردستی پانی میں ڈبویا جب اُس کی جان بچانے کی کوشش ماند پڑنے لگی اور سانس کی بندش سے وہ نیلا پڑ گیا۔ سقراط نے اپنی گرفت ہٹائی اور اسے اپنا سر پانی کی سطح سے اوپرلانے دیا۔

" جس وقت تم پانی سے باہر نکلنے کی کوشش کررہے تھے، تمہیں کس ایک چیز کی خواہش تھی؟" ہانپتے ہوئے نوجوان نے جواب دیا " ہوا، مجھے ہوا چاہیے تھی"۔ سقراط نے جواب دیا کہ "تمہاری کامیابی کا فارمولہ یہی ہے، کہ جس طرح تمہاری زندگی کو بچانے کیلئے ہوا تک پہنچنا تمہاری شدید خواہش اور جدوجہد کی بنیاد تھی، اتنی ہی شدت سے جب کامیابی کے حصول کی شدید خواہش  پیدا کرو گےاور  اُتنی ہی جدوجہد کرو گے تب ہی  تم کامیاب ہو سکتے ہو"۔ سقراط کے واقعے کے سبق میں ایک اضا فہ کرتا  ہوں  کہ کوئی بھی پانی میں گرنے کی وجہ سے نہیں، بلکہ ہاتھوں  پِیروں کی درست کوشش نہ کرنے کی وجہ سے ڈوبتا ہے۔

جس طرح اسکول میں کسی درجے میں کامیابی کیلئے مختلف مضامین میں بیک وقت کامیابی درکار ہوتی ہے،  اسی طرح  انسان کی زندگی میں "کل   کا سلسلہ " منقطع  ہونے سے پہلے پہلے  تمام لازمی مضامین ، یعنی اپنے علم اور ایمان ، اچھی صحت،  مطمئن خاندان،  پیشہ وارانہ کامیابی اور مالی وسائل  کا جائز حصول   ،  الغرض ہر مضمون کا 'بہترین'   ڈھونڈنا اور حاصل کرنا آپ کی کامیابی ہے۔

کیا  ہر  انسان کیلئے کامیابی کا معیار ایک ہی ہے؟ کیونکہ اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کیخواہش تو سب رکھتےہیں۔ جیسا کہ  ایک امریکی ماہر نفسیات   Abraham Maslow نے 'نظریہ ضروریات'کے تحت یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہر انسان کیلئے زندگی کی ترجیحات کا تعین اُس کےپاس موجود  وسائل کی دستیابی سے منسلک ہے،  لہذا ہر انسان کی کامیابی کا پیمانہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ  اپنے موجودہ  وسائل اور   صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنے موجودہ مسائل  کو حل اور اپنی ضروریات کی تکمیل کے اہداف کو  حاصل کرسکے۔     اگر آپ کو کسی   ایک کام کا موقع ملا ہے، تو اُس کام کو بہترین انداز میں پورا کرنا ہی کامیابی ہے،  چاہے وہ کام کھانا پکانا تھا، تو بہترین ذائقہ اور لذت کامیابی ہے؛ اگر آپ کا کام کسی اور کے پکائے ہوئے کھانے کو پیش کرنا ہے، تو کامیابی آپ کی خدمات کے اعلیٰ معیار سے ممکن ہے۔ اگر آپ کا کام اُس ریستوران میں صفائی کرنا یا حفاظت کرنا ہے، تو اپنے کام کا "بہترین" کیا ہے، وہ جاننے کے  بعد حاصل کرنا ہی آپ کی  کامیابی ہے۔ اپنے موجودہ  وسائل کو سامنے رکھئے، پھر جو کام آپ کرسکتے ہیں اُس کے بہترین معیار اور رفتار کے حصول کے بعد آپ کو اگلے اور مزید بڑے چیلنج ملیں گے، ہر مرحلے پر "بہترین کیا ہے؟ " یہ جاننا ، اُس کی تکمیل کی شدید خواہش پیدا کرنا، اور پھر اُس پربھرپور عمل کرنے کی عادت ہی  کامیابی کی عادت بن جاتی ہے۔

Wednesday, January 6, 2021

اُلّو نما یا شاہین نما افرا د – اِنکی پہچان اور ضرورت

 

 اردو ادب میں پرندوں کی صفات کو لوگوں کی شخصیت سے موازنے کیلئے  استعمال کیا جاتا رہا ہے۔  کچھ پرندے منفی خصوصیات سے منسلک  کئے جاتے ہیں، مثلاً   جائز  کے علاوہ ناجائز ذرائع سے بھی کام  نکالنا ہو تو "کوا"، صرف مُردار یا حرام  کی  خواہش کے حامل ہوں تو  'کرگس/گدھ' ،   ماضی کی  کارکردگی سے ہی اُلٹا لٹک کر رہنے والے ہوں تو   'چمگاڈر'   یا پھر  ہر وقت چغلیوں اور شکایتوں کی 'پک، پک کرتے بظخ نما' افراد کو کسی بھی کام یا شعبے میں نامناسب   مثال کے طور پر بتایا جاتا ہے۔ البتہ دو پرندوں کی صفات عا لمی پیمانے پر مثبت انداز میں پیش کی جاتی ہیں:  ا ُلّو اور شاہین!

 ویسے ہماری 'عام گفتگو 'میں بھی " اُلّو "  کا ذکر    کثرت سے پایا جاتا ہے، مگر  ادبی مواد میں   شوق بہرائچی کا شعر کافی مشہور ہوا ہے:

برباد گلستاں کرنے کو  بس ایک ہی اُلّو کافی تھا

ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے،  انجامِ گلستاں کیا ہوگا۔

  اب  جہاں  وطنِ عزیز میں کسی کو اُلّو کے نام سے پکارنا معیوب سمجھا جاتا ہے،  وہیں  اقوامِ عالم میں اُلّوکو  بہت دلچسپ    علامات  سے منسوب کیا جاتا  ہے۔    قدیم  یونانی  اپنی "حکمت اور دانائی کی دیوی "Athena"  کی علامت  کے طور پر اُلّوکا نشان  اور مجسمے بناتے تھے۔  ہندومت میں اُلّو کو دولت کی دیوی "لکشمی" کی سواری کے طور پر پیش کیا گیا۔ ہماری ثقافت میں "کوّے" کی  آواز کو مہمان کی آمد کی علامت سمجھاجاتا رہا، کچھ اس کی مثال   مشرقی افریقہ بالخصوص  کینیا میں تھی جہاں   اگر کسی جگہ اُلّو کی  آمد ہوتی اور اسکی آواز سنی جاتی تو ا س کو  "موت کی آمد" سمجھا جاتا تھا۔  ملی جلی علامات کے برخلاف اِس مضمون میں اُلّو کو  جدید مغربی     سوچ کے تحت "بیداری یا  ذہانت"  کی علامت  ہی فرض کرتے ہیں،  یعنی ' اُلّو نما'  خصوصیات کو مُثبت انداز میں پیش کیا جائے گا۔

شاہین کو پرندوں کی دنیا میں کامیابی اور سربراہی (Leadership) کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔  شاہین کی صفات اور  اعمال کو  شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے بھی  کامیاب آیڈیل  قرار دیا، تو  دوسری طرف دنیا کی قدیم تہدیبوں  میں بھی شاہین کی علامت کو اپنے قومی نشان کی حیثیت دی جاتی رہی ۔  آج بھی  پاک فضائیہ ہو یا پھر امریکی حکومت کا  سرکاری نشان، ہر جگہ شاہین کو  کامیابی اور قوت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔   پاکستان کے طول و عرض میں ہر قوم   میں ہی    شا ہین  مردانہ اور زنانہ  نام کی  حیثیت سے خاصا   مشہور ہے،   یہ الگ معاملہ ہے کہ نام کے شا ہین ہیں یا پھر کام کے شاہین!

آپ  چاہے افرادی وسائل Human Resources کے شعبے سے ہوں یا ٹیم کے نمائندوں کی سکریننگ اور انٹرویو کی  ذمہ داری کے حامل ہوں، امیدواروں اور ٹیم ممبران کی شخصی پروفائل میں اِن  "اعلیٰ پرندوں کی صفات" سے مددلے سکتے ہیں۔اب ان دونوں کی  ملتی جلتی طبعی خصوصیات کو دیکھیں تو دونوں مردار نہیں کھاتے، یعنی دونوں ہی تازہ شکار کرتے ہیں۔   دونوں پرندوں میں دیکھنے کی صلاحیت بہت تیز ہوتی ہے، خاص طور پر اُلّو  کو اندھیرے میں بھی اپنا شکار باآسانی نظر آجاتا ہے، لہذا اندھیرے میں اکثر   بااعتماد چوہے اور  خرگوش  یقین ہی نہیں کرپاتے کہ اُلّو  نے اُن کا نوٹس لے لیا ہے۔   ذہین اور چوکس تو   اُلّو ہی سمجھے جاتے ہیں،  یعنی اپنے اردگرد نظر دوڑانی ہو تو 270 ڈگری  اپنی گردن گھمانے کی  صلاحیت بھی اُلّو میں ہی پائی جاتی ہے۔

 اگر امتیازی موازنہ کریں تو  اُلّو  کا ٹارگٹ شاہین کے ٹارگٹ سے عموماً کافی چھوٹا ہوتا ہے۔  اسی طرح دوسری بات جو شاہین کو اُلّو سے ممتاز کرتی ہے، وہ شاہین کی انتہائی اونچی پرواز اور مسکن ہے۔   بہت سے لوگوں کو اُلّو کی نزاکت اور معصومیت  اچھی لگتی ہے، البتہ  ایک شاہین  کی وجاہت اور دبدبہ  اسکی  ہی شخصیت کا خاصہ سمجھا جاتا ہے۔ تو پہلا سوال یہ ہے کہ وہ کونسی  Job Descriptions ہیں ، جہاں   اقبال ؒ    کے  شا ہین یا  پھر اُلّو  کی مغربی صفات  کے حامل افراد  ہی مناسب کارکردگی کے ضامن ہیں ؟ دوسرا  نکتہ  یہ کہ ایک ہی شخص  جو اکثر  اُلّو   والی کیفیت میں رہتا ہے اور  اچانک شاہین  والے Mode  میں آجاتا ہے، تو   وہ کون سی صورتحال ہوتی ہے جب ایک  کیفیت  Mode کو  اختیار کرنا مناسب ہوتا ہے؟

   جس طرح  اُلّو اپنے ماحول میں ( اپنی  ٖ Food Chain میں )   اہمیت رکھتا ہے،  اسی طرح کارپوریٹ فوڈ چین میں   ایسے پروفائل   کچھ شعبوں میں  اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں –  مندرجہ بالا صفات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ، اُلّو نما شخصیت میں نشست-پسندی  (Sedentary lifestyle )   نمایاں ہوتی ہے۔ ذہانت بھی  موجود ہوتی ہے  اور معلومات  کے حصول میں  ہمہ وقت مشغول  رہتے ہیں ( مثلاً دورِ حاضر میں سوشل میڈیا کے شُغل  سے کون واقف نہیں!) اونچی پرواز  یا  بڑے رسک  لینے سے فطرتاً     اُلّو —نما افراد دور ہی رہتے ہیں، البتہ ان  کی تخلیقی اور  دوراندیش    'ذہانت' سے منصوبہ سازی   Strategic Planningکا کام لیا جاسکتا ہے۔   انھیں  یکسانیت سے اکتاہٹ نہیں ہوتی، گزر بسر ہو جائے تو زیادہ تردد نہیں کرتے۔   ان  کے مفادات کو ٹھیس نہ پہنچائیں تو کسی قسم کی جارحانہ  حکمتِ عملی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔     نہ آسانی سے غصے میں آتے ہیں، اور نہ ہی آسانی سے آرام دہ کیفییت سے باھر آتے ہیں۔

اِن کے برخلاف، شاہین –نما پروفائل کارپوریٹ ماحول کے ہر اُس شعبے کی ضرورت ہوتے ہیں، جہاں مسابقت اور کاروباری اہداف کے حصول کیلئے " پلٹنا، جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا"   اُن کی  مستقل جاب ڈسکرپشن کا حصہ ہوتا ہے۔  نظر کی تیزی کی صفت اپنے ٹارگٹ کے  حصول کیلیے فنی مہارت پر عبور میں دیکھی جاتی ہے، اسی مہارت کو بروئےکار لاتے ہوئے بڑے سے بڑے  کاروباری اہداف کو حاصل کرتے ہیں- اِن کی اس کارکردگی میں مستقل مزاجی سے عملی استعدادِ کار  Productivity کا  حصول  آسان ہوجاتا ہے۔  ان کی فطرت میں   مہم جوئی اور چیلنج والی صورتحال پر عبور حاصل کرنا  سب سے نمایاں صفات ہیں۔  انھیں یکسانیت  اور محدود کارکردگی سے چِڑ ہوتی ہے، اپنے جیسوں کے اچھے ٹیم ممبر ہوتے ہیں، لیکن مسا بقت کی وجہ سے   Professional Jealousy کا  عنصر بھی نمایاں ہوتا ہے۔

لہذا جس Job Description  پر جو صفات درکار ہوں، اگر وہ نہ  منتخب ہوں تو پھر سلیکشن، ٹریننگ اور  ریکروٹمنٹ – الغرض تمام وسائل ضائع ہو جاتے ہیں۔

#1 Success Formula in Rural Pakistan - Better Listening Skill. (Urdu Article)

  دیہی پاکستان میں مالیاتی اداروں کی کامیابی کا نمبر' ۱' فارمولا:   بات   خُلوص سے سُننا اگرچہ 'سننے ۔ Listening ' کی صل...