![]() |
| | |
گذشتہ سال ایک کتاب Die Empty کے عنوان سے سیلف ہیلپ کے موضوع پرمشہور
ہوئی۔ کتاب کے مصنف Todd Henry نے تعارفی باب میں ایک سبق آموز واقعہ تحریر کیا ہے- مصنف کے ایک دوست نے سوال
کیا، "آپ کے خیال میں دنیا کا سب سے
بیش قیمت خطہ کون سا ہے؟ " کسی نے
جواب دیا کہ نیویارک شہر کا علاقہ "مین ہیٹن"، کسی نے کہا کہ تیل کی
دولت سے مالا مال مشرقِ وسطیٰ، تو کسی نے
جنوبی افریقہ کی سونے کی کانیں بتایا۔
اُس دوست نے کہا، "آپ سب غلط
ہیں، دنیا کا سب سے قیمتی علاقہ 'قبرستان'
ہے – یہ وہ جگہ ہے، جہاں انگنت
ناول اور کتابیں ہیں جو شائع نہ ہو سکیں،
وہ کاروبار اور ادارے ہیں جو شروع نہ ہو سکے، وہ رشتے اور تعلقات ہیں جو قائم
نہ کئےجا سکے، وہ لاکھوں ارادے ہیں جنھیں 'کل' پورا ہونا
تھا، مگر پھر وہ (اچانک قبرستان میں آنے والوں کیلئے )'کل'
کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔"
جو ارادے اور ضروریات پوری نہ ہو
سکیں، وہ زندگی کی ناقابلِ حصول کامیابیاں
تھیں۔
اب اس بات کو مزید سمجھنے کیلئے سقراط کا
واقعہ پڑھ لیجئے۔ سقراط سے ایک نوجوان نے "کامیابی کا فارمولہ"
دریافت کیا، تو سقراط نے اُس نوجوان کو اگلی صبح دریا کے قریب ملنے کیلئے تاکید
کی، تا کہ وہ اُسے کامیابی کا فارمولہ بتا سکے۔ جب اگلے روز وہ نوجوان سقراط کی
بتائی ہوئی جگہ پر پہیچا، تو سقراط اُسے لے کر دریا کے کنارے چہل قدمی کیلئے نکلا۔
کچھ دور چلتے ہوئے اچانک سقراط نے نوجوان کو دریا میں اُس کے ساتھ داخل ہونے کو
کہا۔ جب دونوں دریا میں اس قدر دور پہنچے کہ پانی اُن دونوں کی گردنوں تک پہنچا،
سقراط نے نوجوان کو دبوچ کر پانی کی سطح سے نیچے ڈوبا دیا۔ اُس نوجوان کو اُس وقت
تک زبردستی پانی میں ڈبویا جب اُس کی جان بچانے کی کوشش ماند پڑنے لگی اور سانس کی
بندش سے وہ نیلا پڑ گیا۔ سقراط نے اپنی گرفت ہٹائی اور اسے اپنا سر پانی کی سطح سے
اوپرلانے دیا۔
" جس وقت تم پانی سے باہر نکلنے کی کوشش کررہے تھے، تمہیں کس ایک چیز کی
خواہش تھی؟" ہانپتے ہوئے نوجوان نے جواب دیا " ہوا، مجھے ہوا چاہیے
تھی"۔ سقراط نے جواب دیا کہ "تمہاری کامیابی کا فارمولہ یہی ہے، کہ جس
طرح تمہاری زندگی کو بچانے کیلئے ہوا تک پہنچنا تمہاری شدید خواہش اور جدوجہد کی
بنیاد تھی، اتنی ہی شدت سے جب کامیابی کے حصول کی شدید خواہش پیدا کرو گےاور
اُتنی ہی جدوجہد کرو گے تب ہی تم
کامیاب ہو سکتے ہو"۔ سقراط کے واقعے کے سبق میں ایک اضا فہ کرتا ہوں کہ
کوئی بھی پانی میں گرنے کی وجہ سے نہیں، بلکہ ہاتھوں پِیروں کی درست کوشش نہ کرنے کی وجہ سے ڈوبتا
ہے۔
جس طرح اسکول میں کسی درجے میں کامیابی کیلئے مختلف مضامین میں بیک وقت
کامیابی درکار ہوتی ہے، اسی طرح انسان کی زندگی میں "کل کا سلسلہ " منقطع ہونے سے پہلے پہلے تمام لازمی مضامین ، یعنی اپنے علم اور ایمان ،
اچھی صحت، مطمئن خاندان، پیشہ وارانہ کامیابی اور مالی وسائل کا جائز حصول
، الغرض ہر مضمون کا 'بہترین' ڈھونڈنا اور حاصل کرنا آپ کی کامیابی ہے۔
کیا ہر انسان کیلئے کامیابی کا معیار ایک ہی ہے؟ کیونکہ
اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کیخواہش تو
سب رکھتےہیں۔ جیسا کہ ایک امریکی ماہر نفسیات
Abraham Maslow نے 'نظریہ ضروریات'کے تحت یہ
بتانے کی کوشش کی کہ ہر انسان کیلئے
زندگی کی ترجیحات کا تعین اُس کےپاس
موجود وسائل کی دستیابی سے منسلک ہے، لہذا ہر انسان کی کامیابی کا پیمانہ اس بات پر
منحصر ہوتا ہے کہ اپنے موجودہ وسائل اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنے موجودہ مسائل کو حل اور اپنی ضروریات کی تکمیل کے اہداف
کو حاصل کرسکے۔ اگر آپ کو کسی ایک کام کا موقع ملا ہے، تو اُس کام کو بہترین
انداز میں پورا کرنا ہی کامیابی ہے، چاہے
وہ کام کھانا پکانا تھا، تو بہترین ذائقہ اور لذت کامیابی ہے؛ اگر آپ کا کام کسی
اور کے پکائے ہوئے کھانے کو پیش کرنا ہے، تو کامیابی آپ کی خدمات کے اعلیٰ معیار
سے ممکن ہے۔ اگر آپ کا کام اُس ریستوران میں صفائی کرنا یا حفاظت کرنا ہے، تو اپنے
کام کا "بہترین" کیا ہے، وہ جاننے کے
بعد حاصل کرنا ہی آپ کی کامیابی
ہے۔ اپنے موجودہ وسائل کو سامنے رکھئے، پھر
جو کام آپ کرسکتے ہیں اُس کے بہترین معیار اور رفتار کے حصول کے بعد آپ کو اگلے
اور مزید بڑے چیلنج ملیں گے، ہر مرحلے پر "بہترین کیا ہے؟ " یہ جاننا ،
اُس کی تکمیل کی شدید خواہش پیدا کرنا، اور پھر اُس پربھرپور عمل کرنے کی
عادت ہی کامیابی کی عادت بن جاتی ہے۔

